تعلیم کے ساتھ طلبہ کی دینی اور اخلاقی
تربیت ایک ایسا بنیادی اورحساس موضوع ہے کہ جس کی
اہمیت، ضرورت اور افادیت سے نہ صرف اہلِ علم کو بلکہ امت کے کسی
باشعور فردکو انکار نہیں ہوسکتا؛ بلکہ فتنوں کے ایسے دور میں جب
کہ اخلاقیات میں زوال وانحطاط کے نِت نئے ذرائع اور طریقے تیز
رفتاری سے ایجاد ہوتے جارہے ہیں، پورا مسلم معاشرہ اس کی
زد میں ہے، ایسے نازک وقت میں اپنے ماتحتوں کی اسلامی
تربیت کی ذمہ داری یقینا بڑھ جاتی ہے، مدارس
کے طلبہ کے تعلیمی معیار کی بلندی اور ترقی
کے لیے عموماً مختلف کوششیں اور طریقے اختیار کیے
جاتے ہیں، ماہانہ، سہ ماہی تعلیمی جائزہ کا نظام بنایا
جاتا ہے، مدرسوں کے بعض ذمہ دار اور تعلیمات کے نگراں اس سلسلہ میں
فکرمند اور سنجیدہ ہوتے ہیں، ماہرینِ تعلیم علماء سے
مشاورت کرتے ہیں، وغیرہ۔ کسی بھی ادارہ کے روشن
مستقبل کے لیے بلاشبہ یہ واجبی درجہ کا عمل ہے؛ تاہم ان طلبہ کی
اخلاقی تربیت کا نظام مقرر کرنا اور صرف زبانی یا کاغذی
نہیں؛ بلکہ اس کو نافذ العمل کرنا یہ تعلیم سے زیادہ اہمیت
کا حامل ہے اوراس کے لیے باقاعدہ ”نظامِ تربیت“ کے شعبہ کا قیام
ضروری ہے اور اس شعبہ کے فروغ وترقی کے لیے بھی ان تمام
اُصولوں کواختیار کرنا لازم سمجھا جائے جو معیارِ تعلیم کے تفوق
وبہتری کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت مفتی مہربان علی بڑوتی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں: ”مسلمان
بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم وتربیت اور تادیب
کا انتظام ہمیشہ کیاگیا ہے خلافتِ راشدہ میں خاص طور سے
اس کا اہتمام کیاگیا اور اس کے لیے معلّم وموٴدِّب مقرر کیے
گئے اور ان کو تنخواہ دی گئی؛ چنانچہ خاص مدینہ منورہ میں
تین معلّم بچوں کو دینی تعلیم دیتے تھے اور حضرت
عمر رضی اللہ عنہ ہر ایک کو پندرہ درہم ماہوار تنخواہ دیتے تھے۔
(کنزالعمال، ص۹۲، ج۲)
عہدِ سلف میں بچوں کی دینی تعلیم
وتربیت کے ساتھ ان کو اسلامی اخلاق وآداب بھی سکھائے جاتے تھے
اوراس کے لیے مشاہیر محدثین وفقہا بڑے لوگوں کے گھروں پر رکھے
جاتے تھے، اچھے اشعار، قرآن شریف، خوش خطی، تیراکی، تیر
اندازی، بزرگوں کے واقعات اور عام مسائل کی تعلیم بھی ہوتی
تھی۔ (کتاب المصون فی الادب ابوہلال عسکری ص۱۲۶)
خلیفہ ہارون رشید نے اپنے صاحبزادے محمدالدین
کو معلّم کے حوالہ کرتے ہوئے کہا: امیرالمومنین تم کو اپنے دل کا ٹکڑا
دے رہا ہے تم اس کو قرآن پڑھاؤ، اشعار اوراخبار کی روایت کرو اور سنن
کی تعلیم دو، اس کو بات کرنے کے موقع ومحل سے واقف کراؤ، نامناسب وقت
ہنسنے سے روکو اور بتاؤ کہ جب بنی ہاشم کے مشائخ کے پاس جائے تو ان کی
تعظیم وتکریم کرے اور جب اس کی مجلس میں فوجی
افسران آئیں تو ان کی نشست گاہ بلند رکھے، ہر وقت اس کوکوئی نہ
کوئی کام کی بات بتاتے سکھاتے رہو۔ اس کو زیادہ کھیل
کود کا موقع نہ دو، ورنہ وہ بیکاری کا عادی ہوجائے گا، جہاں تک
ہوسکے اسے نرمی سے ٹھیک کرو، اگر وہ انکار کرے تو پھر سختی سے
کام لو۔ (مقدمہ ابن خلدون ص۴۷۸)
مورخِ اسلام حضرت قاضی اطہرمبارک پوری فرماتے ہیں: اس دور میں عام
طور سے بچوں کے معلّم کو مُوٴدِّب (ادب سکھانے والا) کہا جاتا تھا جس کا
مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم اور کتاب وغیرہ کے ساتھ
اسلامی آداب واخلاق کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی
تھی اور بچہ مکتب سے نکلتا تھا تو بقدرِ کفایت دینی تعلیم
کے ساتھ اسلامی تربیت سے بھی آراستہ ہوتاتھا، طبقاتِ رجال کی
کتابوں میں بہت سے ائمہ اور علماء کے ذکر میں ”المُوٴدِّب“ کا
لقب ملتا ہے، ایسے تمام حضرات اسلامی آداب بچوں کو سکھاتے تھے اور ان
کو دینی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت بھی
دیتے تھے“۔ (تعلیم وتربیت، ص۲۹ مفتی مہربان علی)
مدارس
میں تربیت کی ضرورت
مدارس میں طلبہ کی تربیت کے متعلق حکیم
الامت حضرت تھانوی قدس سرہ
بہت حساس واقع ہوئے تھے؛ اس لیے حضرت کے کلام میں اس سلسلہ کے رہنما
ارشادات اور ملفوظات بہ کثرت موجود ہیں؛ چنانچہ حضرت کی مشہور تصنیف
”آداب المعاشرت“ میں طالب علم کے آداب کا مفصل بیان ہے، ہم یہاں
موضوع کی مناسبت سے چند ارشادات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جس سے
طلبہ کی تربیت کی اہمیت وضرورت پر روشنی پڑتی
ہے۔
(۱) ”طلبہ میں“
جس کے اخلاق خراب ہوں، اوّل اس کے اخلاق کی اصلاح کا اہتمام کیا جاوے،
بات بات پر اس کو ٹوکا جاوے، اگر اصلاح کی اُمید نہ رہے تو مدرسے سے
علیحدہ کیا جاوے۔
(۲)طلبہ کے تمام
افعال کی نگہداشت کرو،لباس کی بھی دیکھ بھال رکھو، ان کو
لباسِ اہل علم کی ہدایت کرو، ورنہ مدرسے سے الگ کردو، صاف کہہ دو کہ
اگر علم حاصل کرنا ہے تو طالب علموں کی سی صورت بناؤ، ورنہ رخصت ہوجاؤ۔
(۳)اہلِ مدارس دینیہ
تو سادہ ہی وضع میں رہیں، یہی ان کی خوبی
ہے، ان کی رفتار سے، گفتار سے، نشست سے، برخاست سے، ان کے لباس سے اسلامی
شان کی جھلک معلوم ہوتی ہو۔
(۴)جس کو اپنی
بات کی پچ کرنے کا مرض ہو، وہ ہرگز پڑھانے کے قابل نہیں۔
(۵)طلبہ کے لیے
اخبار بینی کو سمِّ قاتل سمجھتا ہوں، اخبار دیکھنے والوں کو تو
مدرسہ سے نکال دیتا ہوں۔
(۶)میں اس شخص
کو مدرسہ میں رکھنا نہیں چاہتا جس سے دوسروں کو ایذا پہنچے۔
(۷)طالبِ علم کے لیے
میل جول ”غیرضروری فضول، خلط ملط“ اور تعلقات ”سمِّ قاتل“ اور
”مہلک زہر“ ہے۔
(۸)ہم تو علومِ درسیہ
مروجہ مدارس عربیہ کو بھی جب کہ وہ صرف الفاظ کے درجہ میں ہو
اور عمل ساتھ نہ ہو، علم نہیں کہتے۔
(۹) بہت سی کتابیں
پڑھ لینے، ”پڑھا لینے“ کا نام دین نہیں ہے، دین میں
اصلاحِ اخلاق کی اصلاح فرض ہے۔
(۱۰)بعض کہتے ہیں
کہ لکھ پڑھ کر سب درست ہوجائیں گے (اس لیے زمانہٴ طالب علمی
میں اصلاح ودرستی کی فکر کی ضرورت نہیں) اے نادانو!
اس وقت تواور بگڑجائیں گے (چونکہ مخلّٰی بالطبع اور آزادہوں گے)
اس وقت (طالب علمی میں) تو دوسروں کے ماتحت ہیں جب ابھی
ٹھیک نہ ہوئے تو آئندہ مختار ہوکر کیا اُمید ہوسکتی ہے۔
اُس وقت تو کوئی یہ بھی نہ کہہ سکے گا کہ مولانا آپ سے یہ
کوتاہی ہوئی یا آپ نے مسئلہ کے خلاف کیا--- درست ہونے کا
تویہ (طالب علمی کا) ہی وقت ہے۔
(۱۱) تربیت سے
قطعِ نظر کرنے کی اور ضروری نہ سمجھنے کی تو کسی حال میں
گنجائش نہیں، یہ کوتاہی ہے کہ بعض لوگ تعلیم کو تو ضروری
سمجھتے ہیں؛ مگر تربیت کو ضروری نہیں سمجھتے؛حالانکہ تربیت
کی ضرورت تعلیم سے بھی ”زیادہ اور اہم“ ہے --- مطلق تعلیم
سے اس لیے کہ مقصود تعلیم سے تربیت ہی ہوتی ہے؛ کیونکہ
تعلیم علم دینا ہے اور تربیت عمل کرانا ہے اور علم سے مقصود عمل
ہی ہے اور مقصود کا اہم ہونا ظاہر ہے --- اور تعلیم درسی سے تو
”مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ“ اس لیے کہ یہ تعلیم فرضِ عین نہیں
اور تربیت یعنی تہذیبِ نفس ہر شخص پر فرضِ عین ہے۔
(اصلاح انقلاب بحوالہ تعلیم وتربیت ص۴۸ طبع قدیم)
$ $ $
----------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10،
جلد: 99 ، ذی الحجہ1436 ہجری مطابق اکتوبر 2015ء